غریب آدمی کو ٹھاٹ پادشاہی کا
یہ پیش خیمہ ہے ظالم تری تباہی کا
خدنگ آہ کو روکے رہا ہوں فرقت میں
خیال ہے مجھے افلاک کی تباہی کا
امید کیسے ہو محشر میں سرخ روئی کی
ہمیشہ کام کیا ہو جو رو سیاہی کا
سلام تک نہیں لیتے کلام تو کیسا
فقیری میں بھی تبختر ہے بادشاہی کا
شکست و فتح کا ذمہ نہیں دل ناداں
لڑے ہزار میں یہ کام ہے سپاہی کا
خضاب کرتے ہیں دنیا سے جب گئے گزرے
شگون کرتے ہیں پیری میں رو سیاہی کا
نہ آسماں کی عنایت نہ مہرباں وہ شوخ
نہ پوچھو حال غریبوں کی بے پناہی کا
سفید بالوں پہ کس واسطے خضاب لگائیں
گیا زمانہ جوانی میں رو سیاہی کا
خطائیں ہو گئیں معدوم حج سے اے پرویںؔ
گواہ خود ہے خدا میری بے گناہی کا
غزل
غریب آدمی کو ٹھاٹ پادشاہی کا
پروین ام مشتاق