گریباں سے ترے کس نے نکالا صبح خنداں کو
کیا کس نے نہاں دامن کی کلیوں سے گلستاں کو
اڑایا چٹکیوں میں میرے ذرے نے بیاباں کو
مرے قطرے نے پانی کر دیا ہر موج طوفاں کو
مری کشتی بھنور سے کھیلنے کا شوق رکھتی ہے
یہ کس نے کر دیا خاموش یا رب موج طوفاں کو
یہ کیا نغمہ تھا چھیڑا جو یکایک قلب مضطر نے
کہ میری نے نے رقصاں کر دیا سارے گلستاں کو
میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ چمکا تیرے پرتو سے
لگی ہیں کھینچنے کرنیں مری مہر درخشاں کو
مرے ذوق فنا پر زندگی ہے خضر کی قرباں
مرے تلخانۂ غم میں ڈبو دو آب حیواں کو
کلیم طور معنی ہوں ید بیضا ہے میرا دل
منور کر دیا جس نے مرے چاک گریباں کو
غزل
گریباں سے ترے کس نے نکالا صبح خنداں کو
وحید الدین سلیم