گریباں ہاتھ میں ہے پاؤں میں صحرا کا داماں ہے
بس اب پاؤں ہیں اپنے اور سر خار مغیلاں ہے
ہوائے دشت وحشت ہم کو لے اڑتی ہے بستی سے
ہمارا عنصر خاکی مگر ریگ بیاباں ہے
سبق کو دیکھتا ہوں رات بھر اور پھر الجھتا ہوں
مطول مختصر وہ شرح شعر زلف پیچاں ہے
جلاتا ہے یہ پروانوں کو وصف شعلہ رویاں سے
زبان خامہ بھی اب تو زبان شمع سوزاں ہے
غزل
گریباں ہاتھ میں ہے پاؤں میں صحرا کا داماں ہے
حاتم علی مہر