گردشوں میں بھی ہم راستہ پا گئے
جس گلی سے چلے تھے وہیں آ گئے
ناگہاں اس نے جب پرسش حال کی
آنکھ نم ہو گئی ہونٹ تھرا گئے
ذکر جب بھی چھڑا ہے وفا کا کہیں
جانے کیوں ہم کو کچھ دوست یاد آ گئے
ہاتھ الجھنے لگے جیب و داماں سے کیوں
اے جنوں کیا بہاروں کے دن آ گئے
وہ نظر اٹھ گئی جب سر میکدہ
خود بہ خود جام سے جام ٹکرا گئے
ایسے نازک تو اقبالؔ ہم بھی نہ تھے
لوگ نادان تھے ہم سے ٹکرا گئے

غزل
گردشوں میں بھی ہم راستہ پا گئے
اقبال صفی پوری