گردش دوراں سے اک لمحہ چرانے لیے
سوچنا پڑتا ہے کتنا مسکرانے کے لئے
کتنی زحمت جھیلتا ہے ایک مفلس میزبان
گھر کی بد حالی کو مہماں سے چھپانے کے لئے
بھوک ان کو لے گئی ہے کارخانوں کی طرف
گھر سے بچے نکلے تھے اسکول جانے کے لئے
خون اپنا بیچ کر آیا ہے اک مجبور باپ
بیٹیوں کے ہاتھ پر مہندی لگانے کے لئے
زندگی جلتی ہے کتنی دوزخوں کی آگ میں
چار دیواروں کی اک جنت بنانے کے لئے
ہائے تہواروں نے لوگوں کو بھکاری کر دیا
قرض لینا پڑتا ہے خوشیاں منانے کے لئے
ہو رہے ہیں آج دانہ آندھیوں میں مشورے
صرف میرے گھر کا اک دیپک بجھانے کے لئے
غزل
گردش دوراں سے اک لمحہ چرانے لیے
عباس دانا