EN हिंदी
گردش آب و ہوا جانتی ہے | شیح شیری
gardish-e-ab-o-hawa jaanti hai

غزل

گردش آب و ہوا جانتی ہے

سید امین اشرف

;

گردش آب و ہوا جانتی ہے
دل ہے کیوں دل سے جدا جانتی ہے

سانس لینا ہے فنا ہو جانا
راز یہ برگ حنا جانتی ہے

کیسے روشن ہے اس آندھی میں چراغ
ساری تفصیل ہوا جانتی ہے

یوں دبے پاؤں چلی باد نسیم
جیسے آداب حیا جانتی ہے

روئے غنچہ پہ دمک ہے کس کی
شبنم آبلہ پا جانتی ہے

فرش رہ بن کے بکھر جاتی ہے
بوئے گل درد صبا جانتی ہے

ہیں عبث کنج نہفتہ میں طیور
راستہ برق فنا جانتی ہے