گرد و غبار یوں بڑھا چہرہ بکھر گیا
ملبوس تھا میں جس میں لبادہ بکھر گیا
کل رات جگنوؤں کی سمندر پہ بھیڑ تھی
لگتا تھا روشنی کا جزیرہ بکھر گیا
دہشت تھی اس قدر کہ مناظر پگھل گئے
گر کر بدن سے خود مرا سایہ بکھر گیا
منظر میں اور نظر میں تصادم تھا رات بھر
جب بھی اٹھی نگاہیں دریچہ بکھر گیا
جاں سے زیادہ رکھا جسے احتیاط سے
ورثے میں جو ملا تھا وہ تحفہ بکھر گیا
طوفان یاد رفتگاں اتنا شدید تھا
اشکوں سے میری آنکھ کا تارا بکھر گیا
غزل
گرد و غبار یوں بڑھا چہرہ بکھر گیا
ندیم ماہر