EN हिंदी
گرد و غبار دھوپ کے آنچل پہ چھا گئے | شیح شیری
gard-o-ghubar dhup ke aanchal pe chha gae

غزل

گرد و غبار دھوپ کے آنچل پہ چھا گئے

امام اعظم

;

گرد و غبار دھوپ کے آنچل پہ چھا گئے
اور گھن گرج کے شور بھی بادل پہ چھا گئے

اب تو کوئی کنول نہیں کھلتا ہے جھیل میں
اب کانٹے دار برگ ہی جل تھل پہ چھا گئے

وہ سو نہیں سکے گا کسی پل سکون سے
جب وسوسے بھی آنکھوں کے کاجل پہ چھا گئے

بجلی ستارے چاند شفق اور دھوپ چھاؤں
کیسے زمیں کے برہنہ جنگل پہ چھا گئے

اعظمؔ اسے وہ کہتے ہیں رنگوں کا ایک فن
جب داغ دھبے فرش کے مخمل پہ چھا گئے