گرد کیسی ہے یہ دھواں سا کیا
جا رہا ہے وہ کارواں سا کیا
ہو گیا کوئی مہرباں سا کیا
رنج کا بندھ گیا سماں سا کیا
تک رہے ہیں خلا میں ہم کس کو
بن رہا ہے وہ اک نشاں سا کیا
سلسلہ کچھ اداسیوں کا بھی
جگمگاتا ہے کہکشاں سا کیا
ہم بھی اچھے ہیں درد بھی کم ہے
دل سے اٹھا مگر دھواں سا کیا
کیسے ٹوٹے سکوت شام فراق
ہر طرف شور بے اماں سا کیا
یہ محبت ہے یا ہے کوئی طلسم
پیچھا کرتا ہے اک گماں سا کیا
غزل
گرد کیسی ہے یہ دھواں سا کیا
احمد ہمدانی