گرد مجنوں لے کے شاید باد صحرا جائے ہے
جانے کس وحشت میں بستی کو بگولہ جائے ہے
میں نہ کہتا تھا کہ لازم ہے نگہ بھر فاصلہ
جب بہت نزدیک ہو تو عکس دھندلا جائے ہے
کیا کروں اے تشنگی تیرا مداوا بس وہ لب
جن لبوں کو چھو کے پانی آگ بنتا جائے ہے
خوف کا مفہوم پہلی بار سمجھا عشق میں
بات ہوتی کچھ نہیں اور جان کو آ جائے ہے
لے جہاں کو تج دیا لے کھینچ ڈالی اپنی کھال
اب اسی معیار پر عاشق کو پرکھا جائے ہے

غزل
گرد مجنوں لے کے شاید باد صحرا جائے ہے
شکیل جاذب