EN हिंदी
گرد مجنوں لے کے شاید باد صحرا جائے ہے | شیح شیری
gard-e-majnun le ke shayad baad-e-sahra jae hai

غزل

گرد مجنوں لے کے شاید باد صحرا جائے ہے

شکیل جاذب

;

گرد مجنوں لے کے شاید باد صحرا جائے ہے
جانے کس وحشت میں بستی کو بگولہ جائے ہے

میں نہ کہتا تھا کہ لازم ہے نگہ بھر فاصلہ
جب بہت نزدیک ہو تو عکس دھندلا جائے ہے

کیا کروں اے تشنگی تیرا مداوا بس وہ لب
جن لبوں کو چھو کے پانی آگ بنتا جائے ہے

خوف کا مفہوم پہلی بار سمجھا عشق میں
بات ہوتی کچھ نہیں اور جان کو آ جائے ہے

لے جہاں کو تج دیا لے کھینچ ڈالی اپنی کھال
اب اسی معیار پر عاشق کو پرکھا جائے ہے