EN हिंदी
گرد آلودہ فضا بینائی گرد آلود تھی | شیح شیری
gard-aluda faza binai gard-alud thi

غزل

گرد آلودہ فضا بینائی گرد آلود تھی

مونی گوپال تپش

;

گرد آلودہ فضا بینائی گرد آلود تھی
پتھروں کے شہر میں سنوائی گرد آلود تھی

پتیوں پر تھی رقم سارے چمن کہ داستاں
اور چمن کہ داستاں آرائی گرد آلود تھی

خون میں ڈوبی ہوئی کچھ انگلیاں تھیں سوچ میں
دور وہ تھا حاشیہ آرائی گرد آلود تھی

وہ اسے اوڑھے رہا چہرہ پہ خوشبو کہ طرح
ہاں وہی جس شخص کہ تنہائی گرد آلود تھی

اب کہ رت بدلی تو پھولوں کو پسینہ آ گیا
اب کہ خوشبو کہ کرم فرمائی گرد آلود تھی

میں تپشؔ جن رغبتوں کو اوڑھ کر پھرتا رہا
وہ در و دیوار وہ انگنائی گرد آلود تھی