گرچہ قلم سے کچھ نہ لکھیں گے منہ سے کچھ نہیں بولیں گے
پھر بھی جلوس دار چلا تو ساتھ ہم اس کے ہو لیں گے
وقت آیا تو خون سے اپنے داغ ندامت دھو لیں گے
سایۂ زلف میں جاگنے والے سایۂ دار میں سو لیں گے
کون سے ساحل پر یہ سفینے اپنا لنگر کھولیں گے
رخ پہ ہوا کے ہو لیں گے تو دریا دریا ڈولیں گے
جن ملاحوں کو طوفاں سے تند ہوا نے پار کیا
کیا اب ساحل پر آ کر وہ اپنی ناؤ ڈبو لیں گے
جب بھی دشت وفا میں رقص آبلہ پا یاں ہووے گا
اہل وفا اس سے پہلے ہی راہ میں کانٹے بو لیں گے
لفظوں سے احساس کا رشتہ جس لمحے تک قائم ہے
سچے سمجھو یا جھوٹے کچھ موتی ہم بھی پرو لیں گے
نفسا نفسی کے عالم میں کون کسی کا ہاتھ بٹائے
اپنا اپنا بوجھ ہے عشقیؔ فرداً فرداً ڈھو لیں گے
غزل
گرچہ قلم سے کچھ نہ لکھیں گے منہ سے کچھ نہیں بولیں گے
الیاس عشقی