گرچہ میں سر سے پیر تلک نوک سنگ تھا
پھر بھی وہ مجھ سے بر سر پیکار و جنگ تھا
لب سل گئے تھے اپنے انا کے سوال پر
گو دل ہی دل میں مجھ سے وہ میں اس سے تنگ تھا
میں آ گیا الانگ کے ہر دشت ہر پہاڑ
تیری صدا پہ مجھ پہ ٹھہر جانا ننگ تھا
دنیا تمام آتشیں دھاروں کی زد میں تھی
لیکن میں بے خطر تھا کہ وہ میرے سنگ تھا
شیشے کی کرچیاں سی بدن میں اتر گئیں
اس کا لباس اس کی جسامت پہ تنگ تھا
غزل
گرچہ میں سر سے پیر تلک نوک سنگ تھا
عتیق اللہ