گرچہ اس بنیاد ہستی کے عناصر چار ہیں
لیکن اپنے نیست ہو جانے میں سب ناچار ہیں
دوستی اور دشمنی ہے ان بتاں کی ایک سی
چار دن ہیں مہرباں تو چار دن بیزار ہیں
جی کوئی منصور کے جوں جان کرتے ہیں فدا
وے سپاہی عاشقوں کی فوج کے سردار ہیں
یہ جو سجتی ہے کٹاری دار مشروع کی ازار
مارنے کے وقت عاشق کے ننگی تروار ہیں
دوستی اور پیار کی باتوں پے خوباں کی نہ بھول
شوخ ہوتے ہیں نپٹ عیار کس کے یار ہیں
جو نشہ جوانی کا اترے گا تو کھینچیں گے خمار
اب تو خوباں سب شراب حسن کے سرشار ہیں
کس طرح چشموں سیتی جاری نہ ہو دریائے خوں
تھل نہ پیرا آبروؔ ہم وار اور وے پار ہیں
غزل
گرچہ اس بنیاد ہستی کے عناصر چار ہیں
آبرو شاہ مبارک