گر کہوں مطلب تمہارا کھل گیا
کہتے ہیں اچھا ہوا کیا کھل گیا
غیر کی قسمت کی کھانی ہے قسم
بند تھا دروازہ ان کا کھل گیا
تم کھلے بندوں ملو اغیار سے
شکر پاؤں اب تمہارا کھل گیا
آ گئی بے پردہ وہ صورت نظر
آنکھ کی جب بند پردا کھل گیا
غیر سے اب بند ہو کس بات پر
گالیوں پر منہ تمہارا کھل گیا
کھل گیا حال اس دل بے تاب کا
منہ دوپٹے سے جو ان کا کھل گیا
ہوں اشارے غیر سے اور دیکھوں میں
بیت ابرو کا بھی معنا کھل گیا
نامہ بر! تیرے چھپانے سے مجھے
اپنی قسمت کا نوشتہ کھل گیا
دل کی بے تابی نے رسوا کر دیا
ہائے سب پر راز اپنا کھل گیا
نامہ بر! گر غیر نے دیکھا نہیں
کیسے پھر خط کا لفافا کھل گیا
قدرت حق سے بڑھی عشرت کی شب
شب جو اس کافر کا جوڑا کھل گیا
دیکھیے کیا دل سے دل کو راہ ہے
راز جو تم نے چھپایا کھل گیا
جو نہ کہنا تھا کہا سب کچھ نظامؔ
راز باتوں میں وہ ایسا کھل گیا
غزل
گر کہوں مطلب تمہارا کھل گیا
نظام رامپوری