EN हिंदी
گر کہوں غیر سے پھر ربط ہوا تجھ کو کیا | شیح شیری
gar kahun ghair se phir rabt hua tujhko kya

غزل

گر کہوں غیر سے پھر ربط ہوا تجھ کو کیا

جرأت قلندر بخش

;

گر کہوں غیر سے پھر ربط ہوا تجھ کو کیا
کیا برا مان کے کہتا ہے بھلا تجھ کو کیا

سر اٹھانا تجھے بالیں سے جو دشوار ہے اب
کیوں دلا بیٹھے بٹھائے یہ ہوا تجھ کو کیا

پوچھوں رنجش کا سبب اس سے تو جھنجھلا کے کہے
''گر خفا ہوں تو میں ہوں آپ کو، جا تجھ کو کیا''

ہم اسیران قفس کیا کہیں خاموش ہیں کیوں
راہ لے اپنی چل اے باد صبا تجھ کو کیا

گر کیا اس سے جدا مجھ کو تو کہہ دے یہ فلک
میرے اور اس کے نہ ملنے سے ملا تجھ کو کیا

ہاتھ اٹھاتا نہیں گر عشق سے میں اے ناصح
تو نصیحت سے مری ہاتھ اٹھا تجھ کو کیا

گر کہو نام خدا لگتے ہو تم کیا ہی بھلے
تو یہ کہتا ہے ''بھلا ہوں تو بھلا، تجھ کو کیا''

کیوں دلا بستر غم پر ہے تو خاموش پڑا
کچھ تو کہہ مجھ سے کسی نے یہ کہا تجھ کو کیا

اب وہ موقوف ہوا نامہ و پیغام بھی آہ
حرف غیروں کا اثر کر ہی گیا تجھ کو کیا

میرے ملنے سے کیا منع کسی نے جو تجھے
تو نے اس بات کو سن کر نہ کہا تجھ کو کیا

پیک اشک آنکھوں سے چل نکلے جو خط پڑھتے ہی
جرأتؔ اب کچھ تو بتا اس نے لکھا تجھ کو کیا