EN हिंदी
گر کبھی فرصت ملے تو | شیح شیری
gar kabhi fursat mile to

غزل

گر کبھی فرصت ملے تو

حبیب کیفی

;

گر کبھی فرصت ملے تو
دیکھ لینا گل کھلے تو

کچھ سمجھ پایا نہ لیکن
شکر ہے وہ لب ہلے تو

دل کی بات نہ دل میں رکھنا
کہہ دینا گر دل ملے تو

کہلائیں گے آپ مسیحا
میرا کوئی زخم سلے تو

منتظر ہیں آپ کسی کے
چل دیے ہی قافلے تو

صدیوں تک چلتے رہتے ہیں
چلنے والے سلسلے تو

وہ نہ ہوگا جو ہوا ہے
گر کبھی ہم پھر ملے تو