گر جذبۂ وحشت کا اے دل یہی عنواں ہے
دو روز کا دامن ہے دو دن کا گریباں ہے
ہنسنے میں کہ رونے میں مرنے میں کہ جینے میں
معلوم نہیں کس میں خوشنودیٔ جاناں ہے
ہم وحشیوں کا مسکن کیا پوچھتا ہے ظالم
صحرا ہے تو صحرا ہے زنداں ہے تو زنداں ہے
زنداں میں خیال اتنا اے دست جنوں رکھنا
تا عمر اسیری ہے اور ایک گریباں ہے
اللہ زمانے کے دل کو رکھے قابو میں
ہم جانتے ہیں منظر کیوں چاک گریباں ہے
غزل
گر جذبۂ وحشت کا اے دل یہی عنواں ہے
منظر لکھنوی