EN हिंदी
گر ہم نے دل صنم کو دیا پھر کسی کو کیا | شیح شیری
gar humne dil sanam ko diya phir kisi ko kya

غزل

گر ہم نے دل صنم کو دیا پھر کسی کو کیا

نظیر اکبرآبادی

;

گر ہم نے دل صنم کو دیا پھر کسی کو کیا
اسلام چھوڑ کفر لیا پھر کسی کو کیا

کیا جانے کس کے غم میں ہیں آنکھیں ہماری لال
اے ہم نے گو نشہ بھی پیا پھر کسی کو کیا

آپھی کیا ہے اپنے گریباں کو ہم نے چاک
آپھی سیا سیا نہ سیا پھر کسی کو کیا

اس بے وفا نے ہم کو اگر اپنے عشق میں
رسوا کیا خراب کیا پھر کسی کو کیا

دنیا میں آ کے ہم سے برا یا بھلا نظیرؔ
جو کچھ کہ ہو سکا سو کیا پھر کسی کو کیا