گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
دم کاہے کو یوں اے دل ناکام نکلتا
میں وہم سے مرتا ہوں وہاں رعب سے اس کے
قاصد کی زباں سے نہیں پیغام نکلتا
کرتے جو مجھے یاد شب وصل عدو تم
کیا صبح کہ خورشید نہ تا شام نکلتا
جب جانتے تاثیر کہ دشمن بھی وہاں سے
اپنی طرح اے گردش ایام نکلتا
ہر ایک سے اس بزم میں شب پوچھتے تھے نام
تھا لطف جو کوئی مرا ہم نام نکلتا
کیوں کام طلب ہے مرے آزار سے گردوں
ناکام سے دیکھا ہے کہیں کام نکلتا
تھی نوحہ زنی دل کی جنازے پہ ضروری
شاید کہ وہ گھبرا کے سر بام نکلتا
کانٹا سا کھٹکتا ہے کلیجے میں غم ہجر
یہ خار نہیں دل سے گل اندام نکلتا
حوریں نہیں مومنؔ کے نصیبوں میں جو ہویں
بت خانے ہی سے کیوں یہ بد انجام نکلتا
غزل
گر غیر کے گھر سے نہ دل آرام نکلتا
مومن خاں مومن