گر در حرف صداقت یہ نہیں تھا پھر کیوں
تم نے تالا مرے ہونٹوں پہ لگایا پھر کیوں
لب پہ لفظوں کے کنول تم نے سجائے تھے اگر
تو تکلم کے جزیروں سے کنارہ پھر کیوں
مانا قیدی سے حکومت نہ ڈرے گی لیکن
شاہ راہوں پہ سلاسل کا تماشہ پھر کیوں
چیخ اٹھو گے جو دیکھیں مری بنجر آنکھیں
شوق اتنا تھا تو دریا کو اتارا پھر کیوں
تم اگر مورد الزام نہیں تھے تو تمہیں
اس عدالت نے گنہ گار بنایا پھر کیوں
مصلحت کوئی تو درپیش تھی شاربؔ ورنہ
اس نے تصویر پر یہ رنگ ابھارا پھر کیوں
غزل
گر در حرف صداقت یہ نہیں تھا پھر کیوں
شارب مورانوی