غنیم سے بھی عداوت میں حد نہیں مانگی
کہ ہار مان لی لیکن مدد نہیں مانگی
ہزار شکر کہ ہم اہل حرف زندہ نے
مجاوران ادب سے سند نہیں مانگی
بہت ہے لمحۂ موجود کا شرف بھی مجھے
سو اپنے فن سے بقائے ابد نہیں مانگی
قبول وہ جسے کرتا وہ التجا نہیں کی
دعا جو وہ نہ کرے مسترد نہیں مانگی
میں اپنے جامۂ صد چاک سے بہت خوش ہوں
کبھی عبا و قبائے خرد نہیں مانگی
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں
جبھی تو گور کنوں سے لحد نہیں مانگی
میں سر برہنہ رہا پھر بھی سر کشیدہ رہا
کبھی کلاہ سے توقیر قد نہیں مانگی
عطائے درد میں وہ بھی نہیں تھا دل کا غریب
فرازؔ میں نے بھی بخشش میں حد نہیں مانگی
غزل
غنیم سے بھی عداوت میں حد نہیں مانگی
احمد فراز