EN हिंदी
غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے | شیح شیری
ghamon ki dhup mein bargad ki chhanw jaisi hai

غزل

غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے

تنویر سپرا

;

غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے
مرے لیے مری ہمشیر ماؤں جیسی ہے

بھٹکتا ہوں تو مجھے راستہ دکھاتی ہے
وہ ہم سفر ہے مگر رہنماؤں جیسی ہے

ہو جیسے ایک ہی کنبے کی ساری آبادی
فضا ہمارے محلے کی گاؤں جیسی ہے

نئے بشر نے مسخر کئے مہ و انجم
نئے دماغ میں وسعت خلاؤں جیسی ہے

حقیقتوں کے مقابل ٹھہر نہیں سکتی
پرانی فکر بھی جھوٹے خداؤں جیسی ہے

خلا نوردوں کی منزل نہیں پڑاؤ ہے
مثال چاند کی سپراؔ سراؤں جیسی ہے