غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے
مرے لیے مری ہمشیر ماؤں جیسی ہے
بھٹکتا ہوں تو مجھے راستہ دکھاتی ہے
وہ ہم سفر ہے مگر رہنماؤں جیسی ہے
ہو جیسے ایک ہی کنبے کی ساری آبادی
فضا ہمارے محلے کی گاؤں جیسی ہے
نئے بشر نے مسخر کئے مہ و انجم
نئے دماغ میں وسعت خلاؤں جیسی ہے
حقیقتوں کے مقابل ٹھہر نہیں سکتی
پرانی فکر بھی جھوٹے خداؤں جیسی ہے
خلا نوردوں کی منزل نہیں پڑاؤ ہے
مثال چاند کی سپراؔ سراؤں جیسی ہے
غزل
غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے
تنویر سپرا