غموں کی دھوپ کڑی دوپہر سے گزرے ہیں
تمام عمر جھلستی ڈگر سے گزرے ہیں
ہماری پلکوں سے ٹپکے نہ کیوں گراں خوابی
فراز شب سے طلوع سحر سے گزرے ہیں
عجیب بات ہے گھر کا نشاں نہیں ملتا
ہزار بار انہی دیوار و در سے گزرے ہیں
کبھی سکوں ہے کبھی اضطراب کا عالم
عجیب کیفیت خیر و شر سے گزرے ہیں
بھروسہ کون کرے اب صدائے صحرا کا
مثال گرد اسی رہ گزر سے گزرے ہیں
غزل
غموں کی دھوپ کڑی دوپہر سے گزرے ہیں
محب کوثر