غموں کی بھیڑ نے کچلا ہے مجھ کو شادمانی میں
لگانا چاہتا تھا تشنگی کی آگ پانی میں
ہر اک شے اڑ گئی میری ہواؤں کی روانی سے
سمٹ کے رہ گئی خواہش وفاؤں کی جوانی میں
ہمیشہ چشم میں رہنا مجھے اچھا نہیں لگتا
میں رہنا چاہتا ہوں اے سمندر تیرے پانی میں
تری بستی کے مجرے سے تری اوقات کیا پوچھوں
گدھے بھی شیر بن جاتے اپنی میزبانی میں
میں پڑھ کر ہوش کھو بیٹھا ترے قصے کو اے فرقت
محبت کا نشہ ہے اس شب غم کی کہانی میں
وہ پیلی اوڑھنی والی ابھی بھی دل میں رہتی ہے
یہ لڑکا کھو گیا ہے اس کے رنگ زعفرانی میں
وہ جس دن فیضؔ آئے گی میری چوکھٹ پہ ملنے کو
اسی دن معجزہ ہوگا مری بھی زندگانی میں
غزل
غموں کی بھیڑ نے کچلا ہے مجھ کو شادمانی میں
فیض جونپوری