غموں کی بھیڑ میں رستہ بنا کے چلتا ہوں
علی کی آل ہوں میں سر اٹھا کے چلتا ہوں
ذرا سنبھل کے مرے راستے میں تم آنا
میں اپنے گھر سے لہو آزما کے چلتا ہوں
یہ تیرا شہر مری سانس چھین لیتا ہے
میں اپنے گاؤں میں سینہ پھلا کے چلتا ہوں
جو میری راہ میں پتھر گرا کے جاتا ہے
میں اس کی راہ سے پتھر ہٹا کے چلتا ہوں
ہمیشہ خیر سے پہنچا ہوں اپنی منزل پر
سفر سے پہلے میں کچھ دے دلا کے چلتا ہوں
غزل
غموں کی بھیڑ میں رستہ بنا کے چلتا ہوں
الیاس بابر اعوان