غموں کے اندھیروں میں غرقاب ہوں میں
اماوس کا بکھرا ہوا خواب ہوں میں
مرے نام سے ہے زمانے کو نفرت
کہ پیالے میں ہستی کے زہراب ہوں میں
جمی ہے امیدوں پہ حرماں کی کائی
کہ صحرا کا اک خشک تالاب ہوں میں
قلم بند ہیں جس میں روحوں کے قصے
کتاب زمانہ کا وہ باب ہوں میں
پڑا ہے جو کھائی میں تاریکیوں کی
مرادوں کا وہ نخل شاداب ہوں میں
تجھے زیست کی ہر خوشی ہو میسر
مرا غم نہ کر شاد و شاداب ہوں میں
تعارف مرا کیا ہے پوچھو نہ پرکاشؔ
وفا نام ہے اور نایاب ہوں میں

غزل
غموں کے اندھیروں میں غرقاب ہوں میں
پرکاش تیواری