EN हिंदी
غمی خوشی بانٹی تھی اپنے بستر سے | شیح شیری
ghami KHushi banTi thi apne bistar se

غزل

غمی خوشی بانٹی تھی اپنے بستر سے

رخشندہ نوید

;

غمی خوشی بانٹی تھی اپنے بستر سے
میری ہم سفری تھی اپنے بستر سے

چار طرف ریشم تھا اس میں الجھ گئی
مشکل سے پھر بچی تھی اپنے بستر سے

سلوٹ سلوٹ تارے کرتے ہوئے شمار
سحر مثال اتری تھی اپنے بستر سے

نیندیں پلک میں بھر کر روئی کی مانند
ادھر ادھر بھٹکی تھی اپنے بستر سے

جنگل کی جانب پھر ہوا نے کوچ کیا
کیا وہ تنگ پڑی تھی اپنے بستر سے

پنکھے پر آباد گھروندا چڑیا کا
عجب ہی منظر کشی تھی اپنے بستر سے