غم یہ نہیں کہ غم سے ملاقات ہوئی
غم ہے کہ راہ غم میں خرافات ہو گئی
میں اہتمام مجلس آداب میں رہا
کیوں لوگ اٹھ گئے ہیں یہ کیا بات ہو گئی
ماحول جب تمازت خورشید میں ہوا
رت جانے کیوں بدل گئی برسات ہو گئی
وہ واقعہ جو روح کی گہرائیوں میں تھا
وہ بات اب تو نذر حکایات ہو گئی
تنہا تھی میری سادہ روی سوئے زندگی
پھر ساتھ میرے گردش حالات ہو گئی
میں فرط احتیاط سے گزرا مگر عتیقؔ
اس پر نگاہ از رہ عادات ہو گئی
غزل
غم یہ نہیں کہ غم سے ملاقات ہوئی
عتیق اثر