EN हिंदी
غم یہ نہیں کہ غم سے ملاقات ہوئی | شیح شیری
gham ye nahin ki gham se mulaqat hui

غزل

غم یہ نہیں کہ غم سے ملاقات ہوئی

عتیق اثر

;

غم یہ نہیں کہ غم سے ملاقات ہوئی
غم ہے کہ راہ غم میں خرافات ہو گئی

میں اہتمام مجلس آداب میں رہا
کیوں لوگ اٹھ گئے ہیں یہ کیا بات ہو گئی

ماحول جب تمازت خورشید میں ہوا
رت جانے کیوں بدل گئی برسات ہو گئی

وہ واقعہ جو روح کی گہرائیوں میں تھا
وہ بات اب تو نذر حکایات ہو گئی

تنہا تھی میری سادہ روی سوئے زندگی
پھر ساتھ میرے گردش حالات ہو گئی

میں فرط احتیاط سے گزرا مگر عتیقؔ
اس پر نگاہ از رہ عادات ہو گئی