غم اٹھاتے ہیں وہی اکثر خوشی پانے کے بعد
جو خزاں کو بھول جاتے ہیں بہار آنے کے بعد
زندگی یوں کٹ رہی ہے ان کے ٹھکرانے کے بعد
جیسے اک محفل کی حالت شمع بجھ جانے کے بعد
اہل کشتی تم کو یہ ہر موج دیتی ہے پیام
پاؤ گے ساحل مگر طوفاں سے ٹکرانے کے بعد
جو بھی پیاسا آئے اس کی پیاس بجھنا چاہیے
بندشیں کیسی در مے خانہ کھل جانے کے بعد
جیسے ہم دور جہالت سے بھی پیچھے ہٹ گئے
ایسی باتیں کر رہے ہیں ہوش میں آنے کے بعد
ہوشیار اے قافلے والو کہ اکثر قافلے
لٹ گئے ہیں سرحد منزل پہ آ جانے کے بعد
اے فلک ہم بھولتے جاتے ہیں انداز خلیل
ہم پہ انگارے بھی برسا پھول برسانے کے بعد
سخت ہوتا ہے شعور زندگی کا امتحاں
انقلاب آنے سے پہلے انقلاب آنے کے بعد
انقلاب وقت کے شعلوں میں بڑھ کے کود جا
زندگی ملتی ہے پروانے کو جل جانے کے بعد
ہاں تڑپنے کا بھی شاربؔ اک سلیقہ چاہیے
تو سہی دنیا نہ تڑپے ہم کو تڑپانے کے بعد
غزل
غم اٹھاتے ہیں وہی اکثر خوشی پانے کے بعد
شارب لکھنوی