غم ترا جلوہ گہہ کون و مکاں ہے کہ جو تھا
یعنی انسان وہی شعلہ بجاں ہے کہ جو تھا
پھر وہی رنگ تکلم نگۂ ناز میں ہے
وہی انداز وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا
کب ہے انکار ترے لطف و کرم سے لیکن
تو وہی دشمن دل دشمن جاں ہے کہ جو تھا
عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت
وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا
قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا
نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال
دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
حسن کو کھینچ تو لیتا ہے ابھی تک لیکن
وہ اثر جذب محبت میں کہاں ہے کہ جو تھا
آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک
لئے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا
پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات
وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا
پھر سر میکدۂ عشق ہے اک بارش نور
چھلکے جاموں سے چراغاں کا سماں ہے کہ جو تھا
پھر وہی خیر نگاہی ہے ترے جلووں سے
وہی عالم ترا اے برق دماں ہے کہ جو تھا
آج بھی آگ دبی ہے دل انساں میں فراقؔ
آج بھی سینوں سے اٹھتا وہ دھواں ہے کہ جو تھا
غزل
غم ترا جلوہ گہہ کون و مکاں ہے کہ جو تھا
فراق گورکھپوری