EN हिंदी
غم سے کہیں نجات ملے چین پائیں ہم | شیح شیری
gham se kahin najat mile chain paen hum

غزل

غم سے کہیں نجات ملے چین پائیں ہم

داغؔ دہلوی

;

غم سے کہیں نجات ملے چین پائیں ہم
دل خون میں نہائے تو گنگا نہائیں ہم

جنت میں جائیں ہم کہ جہنم میں جائیں ہم
مل جائے تو کہیں نہ کہیں تجھ کو پائیں ہم

جوف فلک میں خاک بھی لذت نہیں رہی
جی چاہتا ہے تیری جفائیں اٹھائیں ہم

ڈر ہے نہ بھول جائے وہ سفاک روز حشر
دنیا میں لکھتے جاتے ہیں اپنی خطائیں ہم

ممکن ہے یہ کہ وعدے پر اپنے وہ آ بھی جائے
مشکل یہ ہے کہ آپ میں اس وقت آئیں ہم

ناراض ہو خدا تو کریں بندگی سے خوش
معشوق روٹھ جائے تو کیونکر منائیں ہم

سر دوستوں کا کاٹ کے رکھتے ہیں سامنے
غیروں سے پوچھتے ہیں قسم کس کی کھائیں ہم

کتنا ترا مزاج خوشامد پسند ہے
کب تک کریں خدا کے لیے التجائیں ہم

لالچ عبث ہے دل کا تمہیں وقت واپسیں
یہ مال وہ نہیں کہ جسے چھوڑ جائیں ہم

سونپا تمہیں خدا کو چلے ہم تو نامراد
کچھ پڑھ کے بخشنا جو کبھی یاد آئیں ہم

سوز دروں سے اپنے شرر بن گئے ہیں اشک
کیوں آہ سرد کو نہ پتنگے لگائیں ہم

یہ جان تم نہ لوگے اگر آپ جائے گی
اس بے وفا کی خیر کہاں تک منائیں ہم

ہمسائے جاگتے رہے نالوں سے رات بھر
سوئے ہوئے نصیب کو کیونکر جگائیں ہم

جلوہ دکھا رہا ہے وہ آئینۂ جمال
آتی ہے ہم کو شرم کہ کیا منہ دکھائیں ہم

مانو کہا جفا نہ کرو تم وفا کے بعد
ایسا نہ ہو کہ پھیر لیں الٹی دعائیں ہم

دشمن سے ملتے جلتے ہیں خاطر سے دوستی
کیا فائدہ جو دوست کو دشمن بنائیں ہم

تو بھولنے کی چیز نہیں خوب یاد رکھ
اے داغؔ کس طرح تجھے دل سے بھلائیں ہم