EN हिंदी
غم سے بھیگے ہوئے نغمات کہاں سے لاؤں | شیح شیری
gham se bhige hue naghmat kahan se laun

غزل

غم سے بھیگے ہوئے نغمات کہاں سے لاؤں

شیون بجنوری

;

غم سے بھیگے ہوئے نغمات کہاں سے لاؤں
درد میں ڈوبی ہوئی بات کہاں سے لاؤں

جن میں یادوں کو تری جھونک دوں جلنے کے لیے
وہ سلگتے ہوئے دن رات کہاں سے لاؤں

جو پسند آئے تجھے خون جگر کے بدلے
سونے چاندی کی وہ سوغات کہاں سے لاؤں

دل بھی تشنہ ہے مری روح بھی تشنہ ہے مگر
تیرے جلووں کی وہ برسات کہاں سے لاؤں

تیرے وعدے جو تجھے یاد دلائیں ظالم
ہائے ماضی کے وہ لمحات کہاں سے لاؤں

جب مرے بھاگ میں تنہائی کا اندھیارا ہے
پھر بھلا پریم کی پربھات کہاں سے لاؤں

دل مرا روتا ہے تنہائی میں پہروں شیونؔ
وہ بزرگوں کی ہدایات کہاں سے لاؤں