غم سہتے سہتے مدت تک ایسی بھی حالت ہوتی ہے
آنکھوں میں اشک امڈتے ہیں رونے سے نفرت ہوتی ہے
جب رات کا سناٹا ہوتا ہے دل میں خلوت ہوتی ہے
تم چاندنی جیسے چھٹکا دو ایسی کیفیت ہوتی ہے
عالم پر جیسے چھائے ہوں محبوب کی گود میں آئے ہوں
اب دل کی محبت میں اکثر ایسی محویت ہوتی ہے
جب حسرت و ارماں مٹ جائیں کچھ آس نہ ہو کچھ یاس نہ ہو
جب موت کی نیند آئے دل کو بیدار محبت ہوتی ہے
جب رنج زمانہ دیتا ہے ہم موت کو دعوت دیتے ہیں
پھر تم کیوں یاد آ جاتے ہو جینے کو طبیعت ہوتی ہے
معراج جنوں کے رستے میں ایسا بھی مقام اک آتا ہے
ہم ہوش میں ہوتے ہیں لیکن اپنے سے بھی وحشت ہوتی ہے
بیداد کی بھی اس ظالم کو وہ پیاری ادائیں آتی ہیں
مر مر کے جئے جانے کو جگرؔ افسوس طبیعت ہوتی ہے
غزل
غم سہتے سہتے مدت تک ایسی بھی حالت ہوتی ہے
جگر بریلوی