EN हिंदी
غم پر ہیں طعنہ زن تو خوشی بھی نبھائیے | شیح شیری
gham par hain tana-zan to KHushi bhi nibhaiye

غزل

غم پر ہیں طعنہ زن تو خوشی بھی نبھائیے

سلام ؔمچھلی شہری

;

غم پر ہیں طعنہ زن تو خوشی بھی نبھائیے
سرکار میری بادہ کشی بھی نبھائیے

موتی سے اشک آپ کے قدموں کو تھے عزیز
سوکھے ہوئے لبوں کی ہنسی بھی نبھائیے

پہلے تو موج گل تھی مرے ہر خیال میں
اب فکر کی یہ شعلہ روی بھی نبھائیے

یہ کیا کہ آپ صرف پرستش کریں قبول
معبود شہر میری خودی بھی نبھائیے

بے شک حضور ساقیٔ بزم بہار ہیں
لیکن خود اپنی تشنہ لبی بھی نبھائیے

ہاں ان حسین آنکھوں میں رقصاں ہے زندگی
پلکوں کی ہو سکے تو نمی بھی نبھائیے

شہزاد گان مملکت حسن کے طفیل
ہم شاعروں کی کج کلہی بھی نبھائیے