غم و سرور زمانے پہ کارگر کیا ہے
بہت بسے بہت اجڑے مگر اثر کیا ہے
میں چلتا جاتا ہوں تحلیل ہوتا جاتا ہوں
کڑکتی دھوپ میں شبنم کا یہ سفر کیا ہے
زمین ہوں تو خزانے کہاں گئے میرے
درخت ہوں تو مری شاخ کا ثمر کیا ہے
ہزار آئنوں میں جیسے اک کرن محبوس
نظر ہی کیا ہے مری نقطۂ نظر کیا ہے
وہ آگ ہے کہ جو اڑتا ہے جل کے گرتا ہے
فضا کا روگ ہے تقصیر بال و پر کیا ہے
غزل
غم و سرور زمانے پہ کارگر کیا ہے
خورشید رضوی