غم نہیں مجھ کو جو وقت امتحاں مارا گیا
خوش ہوں تیرے ہاتھ سے اے جان جاں مارا گیا
تیغ ابرو سے دل عاشق کو ملتی کیا پناہ
جو چڑھا منہ پر اجل کے بے گماں مارا گیا
منزل معشوق تک پہنچا سلامت کب کوئی
رہزنوں سے کارواں کا کارواں مارا گیا
دوستی کی تم نے دشمن سے عجب تم دوست ہو
میں تمہاری دوستی میں مہرباں مارا گیا
زہر سے کچھ کم نہ تھی دعوت مری غیروں کے ساتھ
کیا غضب ہے گھر بلا کر میہماں مارا گیا
دشت غربت رنج تنہائی ہجوم درد و یاس
ان بلاؤں میں ترا عاشق کہاں مارا گیا
کیا ہلاک عشق تیرے گیسوؤں کا تھا اثرؔ
سنبلستاں ہو گیا ہے دو جہاں مارا گیا
غزل
غم نہیں مجھ کو جو وقت امتحاں مارا گیا
امداد امام اثرؔ