EN हिंदी
غم مجھ سے کسی طور سمیٹا نہیں جاتا | شیح شیری
gham mujhse kisi taur sameTa nahin jata

غزل

غم مجھ سے کسی طور سمیٹا نہیں جاتا

شہناز مزمل

;

غم مجھ سے کسی طور سمیٹا نہیں جاتا
پہرا ہے مری سوچ پہ بولا نہیں جاتا

اب دل کے دھڑکنے کی صدا بھی نہیں آتی
اور قریۂ خواہش سے بھی نکلا نہیں جاتا

سجدے کے نشانوں سے جبیں زخم ہوئی ہے
اور تجھ سے مقدر مرا بدلا نہیں جاتا

سورج کے نکلنے کی خبر مجھ کو بھی کرنا
ظلمت کدۂ شب میں تو ٹھہرا نہیں جاتا

آنکھوں میں چھپے خواب بھی چھن جائیں نہ مجھ سے
اس خوف سے روزن کوئی کھولا نہیں جاتا

ہر روز نشیمن پہ مرے گرتی ہے بجلی
گھر مجھ سے نیا روز بنایا نہیں جاتا

ہم اپنی اناؤں کا بھرم رکھتے ہیں شہنازؔ
ہر بات پہ طوفان اٹھایا نہیں جاتا