EN हिंदी
غم کی ہر ایک بات کو اب غم پہ چھوڑ دے | شیح شیری
gham ki har ek baat ko ab gham pe chhoD de

غزل

غم کی ہر ایک بات کو اب غم پہ چھوڑ دے

کنول ضیائی

;

غم کی ہر ایک بات کو اب غم پہ چھوڑ دے
اس تشنگی کو قطرۂ شبنم پہ چھوڑ دے

جو تو نے کر دیا ہے تو اس کا حساب رکھ
جو ہم سے ہو گیا ہے اسے ہم پہ چھوڑ دے

خنجر تھا کس کے ہاتھ میں بس اتنا یاد کر
زخموں کا درد وقت کے مرہم پہ چھوڑ دے

تو دیوتا ہے صرف عبادت سے کام رکھ
آدم کے ہر گناہ کو آدم پہ چھوڑ دے

اب آنے والے وقت کا تو انتظار کر
ماضی کو دور حال کے ماتم پہ چھوڑ دے

موسم پہ منحصر ہے یہ فصل غم حیات
فصل غم حیات کو موسم پہ چھوڑ دے

تو اپنے گھر کو تلخئ غم سے بچا کے رکھ
عالم کی بات والیٔ عالم پہ چھوڑ دے