غم کی اندھیری راہوں میں تو تم بھی نہیں کام آؤ ہو
کیوں بے کار کرو ہو حجت آگے بات بڑھاؤ ہو
کیوں تھم تھم کر قدم رکھو ہو کیوں اتنا گھبراؤ ہو
رات کا سناٹا ہے میں ہوں تم کس سے شرماؤ ہو
آؤ اپنے ہاتھ میں لے کر ہاتھ ہمارا دیکھو تو
ہم نے سنا ہے تم سب کی قسمت کا حال بتاؤ ہو
پہلے پہر جب آ نہ سکے تم آخر شب کی فکر ہی کیا
اب تو دل ہی سلگ اٹھا ہے اب کیوں دیا جلاؤ ہو
اک دستور سہی دنیا کا زخموں پر لفظوں کا ڈھیر
اے لوگو کچھ سمجھو بھی ہو جو مجھ کو سمجھاؤ ہو
شام نہیں ڈھلتی کسی صورت رات نہیں کٹتی کسی طور
اب تو بہت دل گھبرائے ہے اب تو بہت یاد آؤ ہو
ہیں احباب بھی اک سرمایہ لیکن یہ بھی یاد رہے
اتنی ہی آنچ لگے گی شوکتؔ جتنا تیز الاؤ ہو
غزل
غم کی اندھیری راہوں میں تو تم بھی نہیں کام آؤ ہو
شوکت پردیسی