غم کے ہاتھوں شکر خدا ہے عشق کا چرچا عام نہیں
گلی گلی پتھر پڑتے ہوں ہم ایسے بدنام نہیں
وہ بھی کیا دن تھے جن روزوں بے فکری میں سوتے تھے
اب کیسی افتاد پڑی ہے چین نہیں آرام نہیں
دل کے اجڑتے ہی آنکھوں نے حیف یہ عالم دیکھ لیا
جلوہ سر رہ کوئی نہیں ہے کوئی بروئے بام نہیں
جس کے اثر سے بے خود ہو کر اپنے تئیں ہم رسوا ہوں
موج مے گل کے ہاتھوں میں ایسا کوئی جام نہیں
دل کا رونا دل کا کھونا لاکھ عذاب الیم سہی
ہمت ہار کے بیٹھ ہی جائیں ہم ایسے ناکام نہیں
غزل
غم کے ہاتھوں شکر خدا ہے عشق کا چرچا عام نہیں
وحید قریشی