EN हिंदी
غم کدے وہ جو ترے گام سے جل اٹھتے ہیں | شیح شیری
gham-kade wo jo tere gam se jal uThte hain

غزل

غم کدے وہ جو ترے گام سے جل اٹھتے ہیں

سلیمان اریب

;

غم کدے وہ جو ترے گام سے جل اٹھتے ہیں
بت کدے وہ جو مرے نام سے جل اٹھتے ہیں

رات تاریک سہی میری طرف تو دیکھو
کتنے مہتاب ابھی جام سے جل اٹھتے ہیں

رات کے درد کو کچھ اور بڑھانے کے لئے
ہم سے کچھ سوختہ جاں شام سے جل اٹھتے ہیں

میں اگر دوست نہیں سب کا تو دشمن بھی نہیں
کیوں مگر لوگ مرے نام سے جل اٹھتے ہیں