غم کا سورج کبھی ڈھلتا ہی نہیں
آسماں رنگ بدلتا ہی نہیں
دے دیا جاتا ہے قبضہ دل پر
دل تو سینے سے نکلتا ہی نہیں
کہتے ہیں اونچی اڑانوں والے
جو گرا پھر وہ سنبھلتا ہی نہیں
ہے خوشامد ہی سے آمد لیکن
وہ خوشامد سے پگھلتا ہی نہیں
گاؤں بھر خوف زدہ ہے اس سے
جو کبھی گھر سے نکلتا ہی نہیں
کسی انسان کا دل ہو کہ چراغ
بے جلائے کبھی جلتا ہی نہیں
خامشی ہے تو بڑی چیز مگر
کام چپ رہنے سے چلتا ہی نہیں
شاعری کر کے بھی دیکھا ہے شکیلؔ
دل میں کچھ ہے جو نکلتا ہی نہیں
غزل
غم کا سورج کبھی ڈھلتا ہی نہیں
شکیل گوالیاری