غم کا صحرا نہ ملا درد کا دریا نہ ملا
ہم نے مرنا بھی جو چاہا تو وسیلہ نہ ملا
مدتوں بعد جو آئینے میں جھانکا ہم نے
اتنے چہرے تھے وہاں اپنا ہی چہرہ نہ ملا
قتل کر کے وہ غنیموں کو جو واپس آئے
اپنے ہی گھر میں انہیں کوئی شناسا نہ ملا
ہم بھی جا نکلے تھے سورج کے نگر میں اک دن
وہ اندھیرا تھا وہاں اپنا بھی سایہ نہ ملا
تشنہ لب یوں تو زمانے میں کبھی ہم نہ رہے
پیاس جو دل کی بجھا دیتا وہ دریا نہ ملا
مل گئے ہم کو صنم خانوں میں کتنے ہی خدا
ڈھونڈنے پر کوئی بندہ ہی خدا کا نہ ملا
آپ کے شہر میں پیڑوں کا نہیں کوئی شمار
دو گھڑی رکنے کو لیکن کہیں سایہ نہ ملا
سبز پتوں سے ملا ہم کو بہاروں کا سراغ
شاخ نازک پہ مگر کوئی شگوفہ نہ ملا
مستحق ہم تری رحمت کے نہ ہونے پائے
تیری دنیا میں کوئی عذر خطا کا نہ ملا
خود نمائی کے بھی اس دور میں ہم کو ساحرؔ
کوئی قاتل نہ ملا کوئی مسیحا نہ ملا
غزل
غم کا صحرا نہ ملا درد کا دریا نہ ملا
ساحر ہوشیار پوری