غم کا مارا کبھی نہ ہو کوئی
بے سہارا کبھی نہ ہو کوئی
جب ہر اک شخص ہو فقط دریا
جب کنارا کبھی نہ ہو کوئی
گر کبھی ہو تو ہو فقط تشبیہ
استعارہ کبھی نہ ہو کوئی
کیوں بھلا اس طرح طبیعت ہو
کیوں گوارا کبھی نہ ہو کوئی
تو کہ اک عمر انتظار کرے
اور اشارہ کبھی نہ ہو کوئی
اس قدر ہوں تہی خدا نہ کرے
جب خسارہ کبھی نہ ہو کوئی
غزل
غم کا مارا کبھی نہ ہو کوئی
فرحت عباس شاہ