EN हिंदी
غم اس کا کچھ نہیں ہے کہ میں کام آ گیا | شیح شیری
gham is ka kuchh nahin hai ki main kaam aa gaya

غزل

غم اس کا کچھ نہیں ہے کہ میں کام آ گیا

طاہر فراز

;

غم اس کا کچھ نہیں ہے کہ میں کام آ گیا
غم یہ ہے قاتلوں میں ترا نام آ گیا

جگنو جلے بجھے مری پلکوں پہ صبح تک
جب بھی ترا خیال سر شام آ گیا

محسوس کر رہا ہوں میں خوشبو کی بازگشت
شاید ترے لبوں پہ مرا نام آ گیا

کچھ دوستوں نے پوچھا بتاؤ غزل ہے کیا
بے ساختہ لبوں پہ ترا نام آ گیا

میں نے تو ایک لاش کی دی تھی خبر فرازؔ
الٹا مجھی پہ قتل کا الزام آ گیا