گم ہوئے جاتے ہیں دھڑکن کے نشاں ہم نفسو
ہے در دل پہ کوئی سنگ گراں ہم نفسو
رسنے لگتی ہیں جب آنکھوں سے تیزابی یادیں
بات کرتے ہوئے جلتی ہے زباں ہم نفسو
دل سے لب تک کوئی کہرام سا سناٹا ہے
خود کلامی مجھے لے آئی کہاں ہم نفسو
اک سبک موج ہے اک لوح درخشاں پہ رواں
ہے تماشائی یہاں سارا جہاں ہم نفسو
کتنے مصروف ہیں مسرور نہیں پھر بھی یہ لوگ
ہے یہ کیا سلسلۂ کار زیاں ہم نفسو
شام تمہید غزل رات ہے تکمیل غزل
دن نکلتے ہی نکل جاتی ہے جاں ہم نفسو
رشک محشر کوئی قامت تو نگاہوں میں جچے
دل میں باقی ہے ابھی تاب و تواں ہم نفسو
زندہ ہو رسم جنوں کس کی نواریزی سے
اب رہا کون یہاں شعلہ بجاں ہم نفسو
آج کی شام غزل کیوں نہ خلشؔ سے ہی سنیں
ڈھونڈ کر لائے کوئی ہے وہ کہاں ہم نفسو
غزل
گم ہوئے جاتے ہیں دھڑکن کے نشاں ہم نفسو
بدر عالم خلش