EN हिंदी
غم ہے کھانے کو اشک پینے کو | شیح شیری
gham hai khane ko ashk pine ko

غزل

غم ہے کھانے کو اشک پینے کو

نظیر رامپوری

;

غم ہے کھانے کو اشک پینے کو
یہ بھی کم کیا ہے اپنے جینے کو

دل میں ہرگز نہ رکھئے کینے کو
اور بھی غم بہت ہیں جینے کو

اپنے دل میں چھپائے پھرتا ہوں
میں ترے درد کے دفینے کو

جس کو کہتی ہے اشک غم دنیا
کوئی دیکھے تو اس نگینے کو

موج در موج آ رہی ہے صدا
ڈوب جانے دو اب سفینے کو

لاگ میں ہے لگاؤ کا انداز
کون سمجھے گا اس قرینے کو

سوچتا ہوں کہ کس سے دوں تشبیہ
اس جبیں پر حسیں پسینے کو

عشق نے کر دیا ہے مجھ کو نہال
دیکھیے درد کے خزینے کو

شکوہ برحق نظیرؔ یہ سوچو
ٹھیس پہنچے گی آبگینے کو