غم ہے کانٹوں کا نہ اندیشہ بیابانوں کا
عشق ہے راہنما آج بھی دیوانوں کا
روح تاریک نظر کور محبت سے گریز
کیا فرشتوں میں ہے شہرا انہیں انسانوں کا
لفظ جذبات کی تصویر نہیں بن سکتے
شکر کیسے ہو ادا حسن کے احسانوں کا
دل برباد سے کرتے ہیں جسے ہم تعبیر
اسی ویرانے میں اک شہر تھا ارمانوں کا
تجھ کو اس دور میں ہے نور حقیقت کی تلاش
کون سمجھائے کہ یہ دور ہے افسانوں کا
مجھ کو پہلو میں وہ دل چاہیے جس میں شاعرؔ
روشنی شمع کی ہو سوز ہو پروانوں کا

غزل
غم ہے کانٹوں کا نہ اندیشہ بیابانوں کا
شاعر فتح پوری