غم الفت میں ڈوبے تھے ابھرنا بھی ضروری تھا
ہمیں راہ محبت سے گزرنا بھی ضروری تھا
حقیقت سامنے آئی بہت حیرت ہوئی مجھ کو
ترے چہرے سے پردے کا اترنا بھی ضروری تھا
ہمیں منزل کو پانا تھا تبھی تو راہ ہستی میں
ہمیں پتھریلے رستوں سے گزرنا بھی ضروری تھا
لٹاتے ہی رہے جو کچھ بھی اپنے پاس تھا یارو
کہ خوشبو کی طرح اپنا بکھرنا بھی ضروری تھا
ہمیں وہ بھول بیٹھے ہیں انہیں پھر یاد کیا کرنا
انہیں راہ محبت میں بسرنا بھی ضروری تھا
ہماری زندگی میں حادثے ہوتے رہے امبرؔ
انہیں سہتے ہوئے اپنا نکھرنا بھی ضروری تھا
غزل
غم الفت میں ڈوبے تھے ابھرنا بھی ضروری تھا
امبر جوشی